اتوار، 11 اکتوبر، 2015

جس کی جرأت پر جہانِ رنگ و بو سجدے میں ہے ۔ نزرانہ عقیدت امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ

جس کی جرأت پر جہانِ رنگ و بو سجدے میں ہے
آج وہ رَمز آشنائے سِرِّ ھُو سجدے میں ہے

ہر نفس میں انشراحِ صدر کی خوشبو لیے
منزلِ حق کی مجسم جستجو سجدے میں ہے

کیسا عابد ہے یہ مقتل کے مصلی پر کھڑا
کیا نمازی ہے کہ بے خوف ِ عدو سجدے میں ہے

اے حسین ابن علی تجھ کو مبارک یہ عروج
آج تو اپنے خدا کے روبرو سجدے میں ہے

جانبِ کعبہ جھکا مولودِ کعبہ کا پسر
قبلہ رو ہو کر حسینِ قبلہ رو سجدے میں ہے

ابنِ زہرا اس تیری شانِ عبادت پر سلام
سر پہ قاتل آچکا ہے اور تو سجدے میں ہے

اللہ اللہ تیرا سجدہ اے شبیہ مصطفی
جیسے خود ذاتِ پیمبر ہو بہ ہو سجدے میں ہے

تھا عمل پیرا جو " كَلَّا لَا تُطِعْهُ " پر وہ آج
بن کے " وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ "کی آرزو سجدے میں ہے

یہ شرف کس کو ملا تیرے علاوہ بعدِ قتل
سر ہے نیزے کی بلندی پر ، لہو سجدے میں ہے

سر کو سجدے میں کٹا کر کہہ گیا زہرا کا لال
کچھ اگر ہے تو بشر کی آبرو سجدے میں ہے

کون جانے ، کو ن سمجھے ، کون سمجھائے نصیر
عابد و معبود کی جو گفتگو سجدے میں ہے
کلام پیر نصیر الدین نصیر

مرا پیمبر عظیم تر ہے . نعتیہ کلام مظفر وارثی

مرا پیمبر عظیم تر ہے
کمالِ خلاق ذات اُس کی
جمالِ ہستی حیات اُس کی
بشر نہیں عظمتِ بشر ہے 
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

وہ شرحِ احکام حق تعالیٰ
وہ خود ہی قانون خود حوالہ
وہ خود ہی قرآن خود ہی قاری
وہ آپ مہتاب آپ ہالہ
وہ عکس بھی اور آئینہ بھی
وہ نقطہ بھی خط بھی دائرہ بھی
وہ خود نظارہ ہے خود نظر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

شعور لایا کتاب لایا
وہ حشر تک کا نصاب لایا
دیا بھی کامل نظام اس نے
اور آپ ہی انقلاب لایا
وہ علم کی اور عمل کی حد بھی 
ازل بھی اس کا ہے اور ابد بھی
وہ ہر زمانے کا راہبر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

وہ آدم و نوح سے زیادہ
بلند ہمت بلند ارادہ
وہ زُہدِ عیسیٰ سے کوسوں آ گے
جو سب کی منزل وہ اس کا جادہ
ہر اک پیمبر نہاں ہے اس میں
ہجومِ پیغمبراں ہے اس میں
وہ جس طرف ہے خدا ادھر ہے 
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

بس ایک مشکیزہ اک چٹائی
ذرا سے جَو ایک چارپائی
بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی
یہی ہے کُل کائنات جس کی 
گنی نہ جائيں صفات جس کی 
وہی تو سلطانِ بحرو بر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

جو اپنا دامن لہو میں بھر لے
مصیبتیں اپنی جان پر لے
جو تیغ زن سے لڑے نہتا
جو غالب آ کر بھی صلح کر لے
اسیر دشمن کی چاہ میں بھی
مخالفوں کی نگاہ میں بھی
امیں ہے صادق ہے معتبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

جسے شاہِ شش جہات دیکھوں
اُسے غریبوں کے ساتھ دیکھوں
عنانِ کون و مکاں جو تھامے
خدائی پر بھی وہ ہاتھ دیکھوں
لگے جو مزدور شاہ ایسا
نذر نہ دَھن سربراہ ایسا
فلک نشیں کا زمیں پہ گھر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ خلوتوں میں بھی صف بہ صف بھی 
وہ اِس طرف بھی وہ اُس طرف بھی
محاذ و منبر ٹھکانے اس کے
وہ سربسجدہ بھی سربکف بھی
کہیں وہ موتی کہیں ستارہ
وہ جامعیت کا استعارہ
وہ صبحِ تہذیب کا گجر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

جمعہ، 9 اکتوبر، 2015

بے مثل ہے کونین میں سرکار کا چہرہ ۔ کلام پیر نصیر الدین نصیر

بے مثل ہے کونین میں سرکار کا چہرہ
آئینہِ حق ہے شہہِ ابرار کا چہرہ

دیکھیں تو دعا مانگیں یہی یوسفِ کنعاں
تکتا رہوں خالق ! ترے شہکار کا چہرہ

خورشیدِ حلیمہ! تری مشتاق ہیں آنکھیں
بھاتا نہیں اب ماہِ ضیا بار کا چہرہ

اے خُلد کروں گا ترا دیدار بھی لیکن
اِس دم ہے نظر میں ترے مختار کاچہرہ

والشمس کی یہ دادِ قسم کہتی ہے مڑ کر
بے داغ رہا شاہ کے کردار کا چہرہ

جلوؤں سے ہو معمور کیوں نہ دل کا مدینہ
آنکھوں میں ہے اُس مطلعِ انوار کا چہرہ

دورانِ شفاعت وہ سکوں بخش دِلا سے
بے فکرِ ندامت ہے گنہگار کا چہرہ

کِھلتا ہی گیا پھول کی صورت دمِ آخر
اُترا نہیں دیکھا ترے بیمار کا چہرہ

پوچھا جو یہ سائل نے کہ کیا چیز ہے اَحسن
صدیق نے برجستہ کہا "یار کا چہرہ"

جھپکے جو نصیر آنکھ دمِ نزع تو یا رب!
پُتلی میں پھرے احمدِ مختار کا چہرہ

(نصیر الدین نصیر)​

اعلی حضرت احمد رضا خاں کی چار زبانوں میں ایک خوبصورت نعت

لَم یَاتِ نَظیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

آپ کی مثل کسی آنکھ نے نہیں دیکھا نہ ہی آپ جیسا کوئی پیدا ہوا
سارے جہان کا تاج آپ کے سر پر سجا ہے اور آپ ہی دونوں جہانوں کے سردار ہیں

اَلبحرُ عَلاَوالموَجُ طغےٰ من بیکس و طوفاں ہوشربا
منجدہار میں ہوں بگڑی ہے ہواموری نیا پار لگا جانا

دریا کا پانی اونچا ہے اور موجیں سرکشی پر ہیں میں بے سروسامان ہوں اور طوفان ہوش اُڑانے والا ہے
بھنورمیں پھنس گیا ہوں ہوا بھی مخلالف سمت ہے آپ میری کشتی کو پار لگا دیں

یَا شَمسُ نَظَرتِ اِلیٰ لیَلیِ چو بطیبہ رسی عرضے بکنی
توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا

اے سورج میری اندھیری رات کو دیکھ تو جب طیبہ پہنچے تو میری عرض پیش کرنا
کہ آپ کی روشنی سے سارا جہان منور ہو گیا مگر میری شب ختم ہو کر دن نہ بنی

لَکَ بَدر فِی الوجہِ الاجَمل خط ہالہ مہ زلف ابر اجل
تورے چندن چندر پروکنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا

آپ کا چہرہ چودھویں کے چاند سے بڑھ کر ہےآپ کی زلف گویا چاند کے گرد ہالہ (پوش)ہے
آپ کے صندل جیسے چہرہ پر زلف کا بادل ہے اب رحمت کی بارش برسا ہی دیں

انا فِی عَطَش وّسَخَاک اَتَم اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرم
برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا

میں پیاسا ہوں اور آپ کی سخاوت کامل ہے،اے زلف پاک اے رحمت کے بادل
برسنے والی بارش کی ہلکی ہلکی دو بوندیں مجھ پر بھی گرا جا

یَا قاَفِلَتیِ زِیدَی اَجَلَک رحمے برحسرت تشنہ لبک
مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا

اے قافلہ والوں اپنے ٹھہرنے کی مدت زیادہ کرو میں ابھی حسرت زدہ پیاسا ہوں
میرا دل طیبہ سے جانے کی صدا سن کر گھبرا کر تیز تیز ڈھڑک رہا ہے

وَاھا لسُویعات ذَھَبت آں عہد حضور بار گہت
جب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینہ کا جانا

افسوس آپ کی بارگاہ میں حضوری کی گھڑیاں تیزی سے گزر گئی
مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب میں سفر کی تکالیف کی پرواہ کئے بغیر مدنیہ آ رہا تھا

اَلقلبُ شَح وّالھمُّ شجوُں دل زار چناں جاں زیر چنوں
پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مورا کون ہے تیرے سوا جانا

دل زخمی اور پریشانیاں اندازے سے زیادہ ہیں،دل فریادی اور چاں کمزور ہے
میراے آقا میں اپنی پریشانیاں کس سے کہوں میری جان آپ کے سوا کون ہے جو میری سنے

اَلروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عشقا
مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا

میری جان آپ پر فدا ہے،عشق کی چنگاری سے مزید بڑھا دیں
میرا جسم دل اور سامان سب کچھ نچھاور ہو گیا اب اس جان کو بھی جلا دیں

بس خامہ خام نوائے رضا نہ یہ طرز میری نہ یہ رنگ مرا
ارشاد احبا ناطق تھا ناچار اس راہ پڑا جانا

رضا کی شاعری نا تجربہ کاراور قلم کمزور ہے ، میرا طور طریقہ اور انداز ایسا نہیں ہے
دوستوں کے اصرار پر میں نے اس طرح کی راہ اختیار کی یعنی چار زبانوں میں شاعری کی

نعت نبی Headline Animator

Search for islamic sites