جمعرات، 20 اگست، 2015
اتوار، 2 اگست، 2015
اج سک متراں دی ودھیری اے ۔ KLAM PIR MEHAR ALI SHAH
اج سک متراں دی ودھیری اے
کیوں دلڑی اداس گھنیری اے
لوںلوں وچ شوق چنگیری اے
اج نیناں نے لائیاں کیوں جھڑیاں
مکھ چند بدر شاشانی اے
متھے چمکے لاٹ نورانی اے
کالی زلف تے اکھہ مستانی اے
مخمور اکھیں ہن مدھ بھریاں
اس صورت نوں میں جان آکھاں
جان آکھاں کے جان جہان آکھاں
سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں
جس شان تھیں شاناں سب بنیاں
سبحان اللہ ما اجملک
ما احسنک مااکملک
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں۔
کیوں دلڑی اداس گھنیری اے
لوںلوں وچ شوق چنگیری اے
اج نیناں نے لائیاں کیوں جھڑیاں
مکھ چند بدر شاشانی اے
متھے چمکے لاٹ نورانی اے
کالی زلف تے اکھہ مستانی اے
مخمور اکھیں ہن مدھ بھریاں
اس صورت نوں میں جان آکھاں
جان آکھاں کے جان جہان آکھاں
سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں
جس شان تھیں شاناں سب بنیاں
سبحان اللہ ما اجملک
ما احسنک مااکملک
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں۔
خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گل چیدہ۔ ۔ مزید پیاری پیاری نعتیں
خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گل چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں ترے اوصاف حمیدہ
تجھ سا کوئی آیا ہے ، نہ آئے گا جہاں میں
دیتا ہے گواہی یہی ، عالم کا جریدہ۔۔۔
اے ہادئ برحق تیری ہر بات ہے سچی
دیدہ سے بھی بڑھ کر ہے ترے لب سے شنیدہ
اے رحمت عالم تیری یادوں کی بدولت
کس درجہ سکوں میں ہے مرا قلب تپیدہ
خیرات مجھے اپنی محبت کی عطا کر
آیا ہوں ترے در پہ بہ دامان دریدہ
تو روح زمن ، روح چمن ، روح بہاراں
تو جان بیاں ، جان غزل ، جان قصیدہ
یوں دور ہوں تائب میں حریم نبوی سے
صحرا میں ہو جس طرح کوئی شاخ بریدہ
محترم حفیظ تائب
کس منہ سے بیاں ہوں ترے اوصاف حمیدہ
تجھ سا کوئی آیا ہے ، نہ آئے گا جہاں میں
دیتا ہے گواہی یہی ، عالم کا جریدہ۔۔۔
اے ہادئ برحق تیری ہر بات ہے سچی
دیدہ سے بھی بڑھ کر ہے ترے لب سے شنیدہ
اے رحمت عالم تیری یادوں کی بدولت
کس درجہ سکوں میں ہے مرا قلب تپیدہ
خیرات مجھے اپنی محبت کی عطا کر
آیا ہوں ترے در پہ بہ دامان دریدہ
تو روح زمن ، روح چمن ، روح بہاراں
تو جان بیاں ، جان غزل ، جان قصیدہ
یوں دور ہوں تائب میں حریم نبوی سے
صحرا میں ہو جس طرح کوئی شاخ بریدہ
محترم حفیظ تائب
مجموعہ نعت ۔ پیاری پیاری نعتیں
میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
کمالِ خلاق ذات اُسکی
جہان ِ ہستی حیات اُسکی
بشر نہیں عظمت ِ بشر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
وہ شرعِ احکام ِ حق تعالیٰ
وہ خود ہی قانون خود حوالہ
وہ خود ہی قرآن خود ہی قاری
وہ آُ پ مہتاب آپ ہالہ
وہ عکس بھی آئینہ بھی وہ ہے
وہ نکتہ بھی خط بھی دائرہ بھی
وہ خود نظارہ ہے خود نظر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
شعور لایا کتاب لایا
وہ حشر تک کا نصاب لایا
دیا بھی کامل نظام اسنے
اور آپ ہی انقلاب لایا
وہ علم کی اور عمل کی حد بھی
ازل بھی اُ سکا ہے اور ابد بھی
وہ ہر زمانے کا راہبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
وہ آدم و نوح سے بھی زیادہ
بلند ہمت بلند ارادہ
وہ زُہد عیسیٰ سے کوسوں آگے
جو سب کی منزل وہ اُسکا جادہ
ہر اک پیمبر نہاں ہے اُس میں
ہجومِ پیمبراں ہے اُس میں
وہ جس طرف ہے خدا اُدھر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
بس ایک مشکیزہ اک چٹائی
ذرا سی جو ایک چارپائی
بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لباسی نہ خوش قُبائی
یہی ہے کل کائنات جسکی
گنی نہ جائیں صفات جسکی
وہی تو سلطان بحروبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
جو اپنا دامن لہو سے بھر لے
مصیبتیں اپنی جان پر لے
جو تیغ زن سے لڑے نہتا
جو غالب آکر بھی صلح کر لے
اسیر دشمن کی چاہ میں بھی
مخالفوں کی نگاہ میں بھی
امین ہے صادق ہے معتبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
وہ خلوتوں میں بھی صف بصف بھی
وہ اِس طرف بھی وہ اُس طرف بھی
محاذ و ممبر ٹھکانے اُسکے
وہ سربسجدہ بھی رس بکف بھی
کہیں وہ موتی کہیں ستارہ
وہ جامعیت کا استعارہ
وہ صبح تہزیب کا گوہر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
شاہ مدینہ ﷺ شاہ مدینہ ﷺ ۔ سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہ مدینہ ﷺ شاہ مدینہ ﷺ
یثرب کے والی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہ مدینہ ﷺ شاہ مدینہ ﷺ
جلوے ہیں سارے تیرے ہی دم سے
آباد عالم تیرے کرم سے
باقی ہر اک شہ نقش خیالی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہ مدینہ ﷺ شاہ مدینہ ﷺ
تیرے لئے ہی دنیا بنی ہے
نیلے فلک کی چادر تنی ہے
تو اگر نہ ہوتا دنیا تھی خالی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہ مدینہ ﷺ شاہ مدینہ ﷺ
تو نے جہاں کی محفل سجائی
تاریکیوں میں شمع جلائی
ہر سمت چھائی ،رات کالی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہ مدینہ ﷺ شاہ مدینہ ﷺ
قدموں میں تیرے عرش بریں ہے
تجھ سا جہاں میں کوئی نہیں ہے
کاندھے پہ تیرے کملی ہے کالی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہ مدینہ ﷺ شاہ مدینہ ﷺ۔
مذ ہب ہے تیرا سب کی بھلائی
مسلک ہے تیرا مشکل کشائی
دیکھ اپنی امت کی خستہ حالی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہ مدینہ ﷺ شاہ مدینہ ﷺ۔
ہے نور تیرا شمس و قمر میں
تیرے لبوں کی لالی گہر میں
پھولوں نےتیری خوشبو چرا لی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہ مدینہ ﷺ شاہ مدینہ ﷺ۔
یثرب کے والی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہ مدینہ ﷺ شاہ مدینہ ﷺ
جلوے ہیں سارے تیرے ہی دم سے
آباد عالم تیرے کرم سے
باقی ہر اک شہ نقش خیالی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہ مدینہ ﷺ شاہ مدینہ ﷺ
تیرے لئے ہی دنیا بنی ہے
نیلے فلک کی چادر تنی ہے
تو اگر نہ ہوتا دنیا تھی خالی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہ مدینہ ﷺ شاہ مدینہ ﷺ
تو نے جہاں کی محفل سجائی
تاریکیوں میں شمع جلائی
ہر سمت چھائی ،رات کالی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہ مدینہ ﷺ شاہ مدینہ ﷺ
قدموں میں تیرے عرش بریں ہے
تجھ سا جہاں میں کوئی نہیں ہے
کاندھے پہ تیرے کملی ہے کالی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہ مدینہ ﷺ شاہ مدینہ ﷺ۔
مذ ہب ہے تیرا سب کی بھلائی
مسلک ہے تیرا مشکل کشائی
دیکھ اپنی امت کی خستہ حالی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہ مدینہ ﷺ شاہ مدینہ ﷺ۔
ہے نور تیرا شمس و قمر میں
تیرے لبوں کی لالی گہر میں
پھولوں نےتیری خوشبو چرا لی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہ مدینہ ﷺ شاہ مدینہ ﷺ۔
ہفتہ، 1 اگست، 2015
MERE AQA AOO KE MUDDAT HOI HE.میرے آقا آؤ کہ مدت ہوئی ہے
میرے آقا آؤ کہ مدت ہوئی ہے، تیر ی راہ میں اکھیاں بچھاتے بچھاتے
تیری حسرتوں میں ، تیری چاہتوں میں بڑے دن ہوئے گھر سجاتے سجاتے
قیامت کا منظر بڑا پُر خطر ہے مگر مصطفٰے کا جو دیوانا ہو گا
وہ پل پر سے گزرے گا مسرور ہو کے نعرہ نبی کا لگا تے لگا تے
میرا یہ ہی ایماں، یہ میرا یقیں ہے میرے مصطفٰےسا نہ کوئی حسیں ہے
کہ رخ اُ ن کا دیکھا ہے جب سے قمر نے نکلتا ہے منہ کو چھپاتے چھپاتے
میرے لب پہ مولیٰ نہ کوئی صدا ہے ، فقط اِس نکمے کی یہ ہی صدا ہے
میر ی سانس نکلے درِ مصطفٰے پہ غمِ دل نبی کو سناتے سناتے
یہ دل جب سے عشقِ نبی میں پڑا ہے نہ دن خبر ہے نہ شب کا پتا ہے
آقا اب تو بصارت بھی کم ہو گئی ہے تیرے غم میں آنسو بھاتے بھاتے
یہ مانا کہ ایک دن آنی قضا ہے مگر دوستو ! تم سے یہ التجا ہے
کہ شہر ِ محمد کی ہر اِک گلی سے جنازہ اُٹھا نا گھماتے گھماتے
نہ کعبہ سے مطلب نہ مسجد کی چاہت فقط دل میں حاکمؔ تمنا یہ ہی ہے
جو مل جائے نقشِ خاک پائے احمد تو مر جائیں سر کو جھکاتے جھکاتے
تیری حسرتوں میں ، تیری چاہتوں میں بڑے دن ہوئے گھر سجاتے سجاتے
قیامت کا منظر بڑا پُر خطر ہے مگر مصطفٰے کا جو دیوانا ہو گا
وہ پل پر سے گزرے گا مسرور ہو کے نعرہ نبی کا لگا تے لگا تے
میرا یہ ہی ایماں، یہ میرا یقیں ہے میرے مصطفٰےسا نہ کوئی حسیں ہے
کہ رخ اُ ن کا دیکھا ہے جب سے قمر نے نکلتا ہے منہ کو چھپاتے چھپاتے
میرے لب پہ مولیٰ نہ کوئی صدا ہے ، فقط اِس نکمے کی یہ ہی صدا ہے
میر ی سانس نکلے درِ مصطفٰے پہ غمِ دل نبی کو سناتے سناتے
یہ دل جب سے عشقِ نبی میں پڑا ہے نہ دن خبر ہے نہ شب کا پتا ہے
آقا اب تو بصارت بھی کم ہو گئی ہے تیرے غم میں آنسو بھاتے بھاتے
یہ مانا کہ ایک دن آنی قضا ہے مگر دوستو ! تم سے یہ التجا ہے
کہ شہر ِ محمد کی ہر اِک گلی سے جنازہ اُٹھا نا گھماتے گھماتے
نہ کعبہ سے مطلب نہ مسجد کی چاہت فقط دل میں حاکمؔ تمنا یہ ہی ہے
جو مل جائے نقشِ خاک پائے احمد تو مر جائیں سر کو جھکاتے جھکاتے
اردو نعت ۔ چلو دیار ِ نبی* کی جانب درود لب پر سجا سجا کر۔
چلو دیار ِ نبی* کی جانب درود لب پر سجا سجا کر
بہاریں لوٹیں گے ہم کرم کی دلوں کو دامن بنا بنا کر
نہ اُن* کے جیسا سخی ہے کوئی ، نہ اُن* کے جیسا غنی ہے کوئی
وہ* بے نواؤں کو ہر جگہ سے نوازتے ہیں بُلا بُلا کر
مَیں وہ نکمّہ ہوں جس کے جھولی میں کوئی حُسن ِ عمل نہیں ہے
مگر وہ احسان کر رہے ہیں خطائیں میری چھپا چھپا کر
ہے اُن* کو اُمّت سے پیار کتنا ، کرم ہے رحمت شعار کتنا
ہمارے جرموں کو دھو رہے ہیں وہ* اپنے آنسو بہا بہا کر
یہی اساس ِ عمل ہے میری ، اِسی سے بگڑی بنی ہے میری
سمیٹتا ہوں کرم خدا کا نبی* کی نعتیں سُنا سُنا کر
وہ راہیں اب تک سجی ہوئی ہیں دلوں کا کعبہ بنی ہوئی ہیں
جہاں جہاں سے حضور* گزرے نقش اپنا جما جما کر
اگر مقدّر نے یاوری کی اگر مدینے گیا مَیں خالد
قدم قدم خاک اُس گلی کی مَیں چوم لوں گا اُٹھا اُٹھا کر
* صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بہاریں لوٹیں گے ہم کرم کی دلوں کو دامن بنا بنا کر
نہ اُن* کے جیسا سخی ہے کوئی ، نہ اُن* کے جیسا غنی ہے کوئی
وہ* بے نواؤں کو ہر جگہ سے نوازتے ہیں بُلا بُلا کر
مَیں وہ نکمّہ ہوں جس کے جھولی میں کوئی حُسن ِ عمل نہیں ہے
مگر وہ احسان کر رہے ہیں خطائیں میری چھپا چھپا کر
ہے اُن* کو اُمّت سے پیار کتنا ، کرم ہے رحمت شعار کتنا
ہمارے جرموں کو دھو رہے ہیں وہ* اپنے آنسو بہا بہا کر
یہی اساس ِ عمل ہے میری ، اِسی سے بگڑی بنی ہے میری
سمیٹتا ہوں کرم خدا کا نبی* کی نعتیں سُنا سُنا کر
وہ راہیں اب تک سجی ہوئی ہیں دلوں کا کعبہ بنی ہوئی ہیں
جہاں جہاں سے حضور* گزرے نقش اپنا جما جما کر
اگر مقدّر نے یاوری کی اگر مدینے گیا مَیں خالد
قدم قدم خاک اُس گلی کی مَیں چوم لوں گا اُٹھا اُٹھا کر
* صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نعت کی بات ۔ امجد اسلام امجد کا ایک خوبصورت مضمون
نعت غالباً واحد صنعف سخن ہے کہ جس کے آغاز کا زمانہ بہت آسانی وثوق اور وضاحت کے ساتھ متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس کی بے شمار فضیلتوں میں سے ایک اہم فضیلت یہ بھی ہے کہ آج تک کی محفوظ انسانی تاریخ میں کسی بھی شکل میں بلکہ اظہار کے سب ذرائع کو ملا کر بھی کسی فرد واحد کی مدح میں اس انداز اور مقدار میں نہیں لکھا گیا جتنا ہمارے رسول کریم محمدؐ عربی کی شان میں لکھا گیا ہے کہ ان کی ثنا دنیا کی تقریباً ہر اس زبان میں کی گئی ہے جس کے بولنے والوں میں مسلمان شامل ہیں اور اس صنف کو یہ اختصاص بھی حاصل ہے کہ بہت سے غیر مسلم شاعروں نے بھی نعت کی شکل میں آپؐ سے عقیدت اور محبت کا والہانہ اظہار کیا ہے اور کنور مہندر سنگھ بیدی نے تو بڑے دلچسپ اور دلکش انداز میں یہاں تک کہہ دیا کہ
عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارا تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارا تو نہیں
عقیدت اور محبت کے اعتبار سے تو ان گنتی سے باہر نعت گو شعرأ کی درجہ بندی اس لیے مناسب نہیں کہ یہ دلوں کا معاملہ ہے جس کا فیصلہ دماغ یا اعداد و شمار یا کسی اور پیمانے سے کیا ہی نہیں جا سکتا۔ البتہ پیرایۂ اظہار، مضمون آفرینی، جذبات کی شدت اور فنی استطاعت ایسے شعبے ہیں جن کی بنیاد پر زبان اور ہر دور میں کچھ مدّاحانِ رسولؐ ایک خاص پہچان کے مالک بن گئے یہ اور بات ہے کہ ان منتخب خوش نصیبوں کی قطار بہت لمبی ہے۔ اردو جیسی کم عمر زبان کے بے شمار شاعروں میں شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو۔
جس کے کلام میں نعتیہ اشعار موجود نہ ہوں۔ اس صنف کو مسلسل اور باقاعدہ طور پر ذریعۂ اظہار بنانے والے نامور مرحوم شاعروں میں خواجہ میر درد، مولانا حالی، امیر مینائی، محسن کاکوروی، علامہ اقبال، حفیظ جالندھری، مولانا ظفر علی خان، ماہر القادری، امام رضا خان بریلوی، بیدم وارثی، احمد ندیم قاسمی، حفیظ تائب، حافظ مظہر الدین، اعظم چشتی، مظفر وارثی، پیر نصیر الدین، خالد احمد، منیر سیفی، حافظ لدھیانوی، وحید الرحمن ہاشمی اور نعیم صدیقی کے اسمائے گرامی شامل ہیں جب کہ دور حاضر کے باقاعدہ نعتیہ مجموعوں کے حامل شعراء میں خورشید رضوی، اعجاز رحمانی، افتخار عارف، ریاض مجید، سلیم کوثر اور راقم الحروف سمیت کچھ اور شاعروں کے نام بھی لیے جا سکتے ہیں۔
البتہ جہاں تک عمدہ اور روح پرور نعتیں لکھنے والوں کی فہرست کا تعلق ہے تو ان کا تعین کرنا اگر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے، کہ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کوئی ایسی نعت نظر سے نہ گزرتی ہو جو روح کو سرشار نہ کر دے۔ جدید دور کے بیشتر خوش کلام شاعر اپنے اظہار عقیدت کے لیے بعض اوقات ایسے سیدھے دل میں اتر جانے والے اور تازگی سے معمور پیرائے اختیار اور ایجاد کرتے ہیں کے بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ امریکا میں مقیم برادرم عارف امام کی ایسی ہی ایک بہت شگفتہ اور دل آویز نعت گزشتہ دنوں پڑھنے کا موقع ملا ہے جس چاہتا ہے کہ اپنے محترم قارئین کو بھی اس روحانی انبساط میں شامل کروں۔
ہم تو آواز میں آواز ملاتے ہیں میاں
نعت کے شعر کہیں اور سے آتے ہیں میاں
رنگ مضموں تو ہے منت کش جبریل کہ ہم
سادے کاغذ پہ لکریں سی بناتے ہیں میاں
تم جو چاہو اسے معراج کہو تو کہہ لو
میرے آقا تو وہاں سیر کو جاتے ہیں میاں
ہم کو پاپوش مقدس کی زیارت ہے بہت
ان کے نعلین تو افلاک اٹھاتے ہیں میاں
در پہ آقا کے ہوں رضوان! مجھے اور نہ چھیڑ
ان کی چوکھٹ بھی کہیں چھوڑ کے جاتے میں میاں؟
سب کو مل جاتی ہے خیرات بقدر توفیق
اس گلی میں تو صدا سب ہی لگاتے ہیں میاں
خواب میں کاش بلال آ کے کسی روز کہیں
جلد اٹھو تمہیں سرکار بلاتے ہیں میاں
اس نعت کے مضامین تو کسی حد تک مانوس سے ہو سکتے ہیں کہ چودہ صدیوں سے اہل دل اس چمنستان کی سیاحی کرتے آ رہے ہیں مگر اصل دیکھنے والی چیز اس کے الفاظ کا انتخاب طرز استعمال اور وہ مکالمے اور خود کلامی کی ملی جلی کیفیت ہے جس میں حضوری کی لذت عجب طرح سے گھل مل گئی ہے۔
اس میں نہ آپؐ کے سراپے کی باتیں ہیں نہ احادیث کا ذکر نہ مناجات کا سوز، نہ میرے مولا بلا لو مدینے مجھے کا آہنگ ہے اور نہ قوالی کا ردھم اور معجزات کا تذکرہ مگر اس کے باوجود آپ عقیدت کی اس شدت اور اظہار کی اس بے ساختگی کو ایک ایک مصرعے میں دھمال ڈالتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں جو شاعر کے ساتھ ساتھ قارئین کو بھی اپنے دل کی آواز محسوس ہونے لگتی ہے۔ ابھی ابھی میرے اصرار پر عزیز سعود عثمانی نے اپنی وہ نعت مجھے whats app پر بھجوائی ہے جو مجھے انھوں نے ایک عمرے کے دوران سنائی تھی۔ اس کی خاص خوبی یہ ہے کہ یہ اس نواح کی مخصوص ذہنی اور روحانی کیفیت سے جغرافیائی دوری کے باوجود فاصلوں کو ختم کر دیتی ہے۔ چند شعر دیکھیے۔
ہے ایک سیل ندامت اس آبگینے میں
عجیب ہے یہ سمندر کہ ہے سفینے میں
ہے بند آنکھ میں بھی عکس مسجد نبوی
جڑا ہوا ہے یہی خواب اس نگینے میں
کسی نے اسم محمدؐ پڑھا تو ایسا لگا
کہ جیسے کوئی پرندہ اڑا ہو سینے میں
میں ایک بے ادب و کم شناس اعرابی
سلگتے دشت سے آیا ہوا مدینے میں
سعودؔ یوں بھی تو ممکن ہے حاضری لگ جائے
میں اپنے شہر میں ہوں اور دل مدینے میں
اس موضوع پر انشاء اللہ میں رمضان بھر میں مسلسل لکھتا رہوں گا۔ فی الوقت غالبؔ کے ایک نعتیہ مطالعے اور اقبال کے رب کریم کی گواہی کے ترجمان ایک لافانی شعر پر اس کالم کا اختتام کرتا ہوں کہ ان دو بڑوں کے بعد بات کرنا ویسے بھی گستاخی کے زمرے میں آتا ہے۔
منظور تھی یہ شکل تجلّی کو نور کی
قسمت کھلی تیرے قد و رخ سے ظہور کی
(غالبؔ)
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
(اقبالؔ)
عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارا تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارا تو نہیں
عقیدت اور محبت کے اعتبار سے تو ان گنتی سے باہر نعت گو شعرأ کی درجہ بندی اس لیے مناسب نہیں کہ یہ دلوں کا معاملہ ہے جس کا فیصلہ دماغ یا اعداد و شمار یا کسی اور پیمانے سے کیا ہی نہیں جا سکتا۔ البتہ پیرایۂ اظہار، مضمون آفرینی، جذبات کی شدت اور فنی استطاعت ایسے شعبے ہیں جن کی بنیاد پر زبان اور ہر دور میں کچھ مدّاحانِ رسولؐ ایک خاص پہچان کے مالک بن گئے یہ اور بات ہے کہ ان منتخب خوش نصیبوں کی قطار بہت لمبی ہے۔ اردو جیسی کم عمر زبان کے بے شمار شاعروں میں شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو۔
جس کے کلام میں نعتیہ اشعار موجود نہ ہوں۔ اس صنف کو مسلسل اور باقاعدہ طور پر ذریعۂ اظہار بنانے والے نامور مرحوم شاعروں میں خواجہ میر درد، مولانا حالی، امیر مینائی، محسن کاکوروی، علامہ اقبال، حفیظ جالندھری، مولانا ظفر علی خان، ماہر القادری، امام رضا خان بریلوی، بیدم وارثی، احمد ندیم قاسمی، حفیظ تائب، حافظ مظہر الدین، اعظم چشتی، مظفر وارثی، پیر نصیر الدین، خالد احمد، منیر سیفی، حافظ لدھیانوی، وحید الرحمن ہاشمی اور نعیم صدیقی کے اسمائے گرامی شامل ہیں جب کہ دور حاضر کے باقاعدہ نعتیہ مجموعوں کے حامل شعراء میں خورشید رضوی، اعجاز رحمانی، افتخار عارف، ریاض مجید، سلیم کوثر اور راقم الحروف سمیت کچھ اور شاعروں کے نام بھی لیے جا سکتے ہیں۔
البتہ جہاں تک عمدہ اور روح پرور نعتیں لکھنے والوں کی فہرست کا تعلق ہے تو ان کا تعین کرنا اگر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے، کہ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کوئی ایسی نعت نظر سے نہ گزرتی ہو جو روح کو سرشار نہ کر دے۔ جدید دور کے بیشتر خوش کلام شاعر اپنے اظہار عقیدت کے لیے بعض اوقات ایسے سیدھے دل میں اتر جانے والے اور تازگی سے معمور پیرائے اختیار اور ایجاد کرتے ہیں کے بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ امریکا میں مقیم برادرم عارف امام کی ایسی ہی ایک بہت شگفتہ اور دل آویز نعت گزشتہ دنوں پڑھنے کا موقع ملا ہے جس چاہتا ہے کہ اپنے محترم قارئین کو بھی اس روحانی انبساط میں شامل کروں۔
ہم تو آواز میں آواز ملاتے ہیں میاں
نعت کے شعر کہیں اور سے آتے ہیں میاں
رنگ مضموں تو ہے منت کش جبریل کہ ہم
سادے کاغذ پہ لکریں سی بناتے ہیں میاں
تم جو چاہو اسے معراج کہو تو کہہ لو
میرے آقا تو وہاں سیر کو جاتے ہیں میاں
ہم کو پاپوش مقدس کی زیارت ہے بہت
ان کے نعلین تو افلاک اٹھاتے ہیں میاں
در پہ آقا کے ہوں رضوان! مجھے اور نہ چھیڑ
ان کی چوکھٹ بھی کہیں چھوڑ کے جاتے میں میاں؟
سب کو مل جاتی ہے خیرات بقدر توفیق
اس گلی میں تو صدا سب ہی لگاتے ہیں میاں
خواب میں کاش بلال آ کے کسی روز کہیں
جلد اٹھو تمہیں سرکار بلاتے ہیں میاں
اس نعت کے مضامین تو کسی حد تک مانوس سے ہو سکتے ہیں کہ چودہ صدیوں سے اہل دل اس چمنستان کی سیاحی کرتے آ رہے ہیں مگر اصل دیکھنے والی چیز اس کے الفاظ کا انتخاب طرز استعمال اور وہ مکالمے اور خود کلامی کی ملی جلی کیفیت ہے جس میں حضوری کی لذت عجب طرح سے گھل مل گئی ہے۔
اس میں نہ آپؐ کے سراپے کی باتیں ہیں نہ احادیث کا ذکر نہ مناجات کا سوز، نہ میرے مولا بلا لو مدینے مجھے کا آہنگ ہے اور نہ قوالی کا ردھم اور معجزات کا تذکرہ مگر اس کے باوجود آپ عقیدت کی اس شدت اور اظہار کی اس بے ساختگی کو ایک ایک مصرعے میں دھمال ڈالتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں جو شاعر کے ساتھ ساتھ قارئین کو بھی اپنے دل کی آواز محسوس ہونے لگتی ہے۔ ابھی ابھی میرے اصرار پر عزیز سعود عثمانی نے اپنی وہ نعت مجھے whats app پر بھجوائی ہے جو مجھے انھوں نے ایک عمرے کے دوران سنائی تھی۔ اس کی خاص خوبی یہ ہے کہ یہ اس نواح کی مخصوص ذہنی اور روحانی کیفیت سے جغرافیائی دوری کے باوجود فاصلوں کو ختم کر دیتی ہے۔ چند شعر دیکھیے۔
ہے ایک سیل ندامت اس آبگینے میں
عجیب ہے یہ سمندر کہ ہے سفینے میں
ہے بند آنکھ میں بھی عکس مسجد نبوی
جڑا ہوا ہے یہی خواب اس نگینے میں
کسی نے اسم محمدؐ پڑھا تو ایسا لگا
کہ جیسے کوئی پرندہ اڑا ہو سینے میں
میں ایک بے ادب و کم شناس اعرابی
سلگتے دشت سے آیا ہوا مدینے میں
سعودؔ یوں بھی تو ممکن ہے حاضری لگ جائے
میں اپنے شہر میں ہوں اور دل مدینے میں
اس موضوع پر انشاء اللہ میں رمضان بھر میں مسلسل لکھتا رہوں گا۔ فی الوقت غالبؔ کے ایک نعتیہ مطالعے اور اقبال کے رب کریم کی گواہی کے ترجمان ایک لافانی شعر پر اس کالم کا اختتام کرتا ہوں کہ ان دو بڑوں کے بعد بات کرنا ویسے بھی گستاخی کے زمرے میں آتا ہے۔
منظور تھی یہ شکل تجلّی کو نور کی
قسمت کھلی تیرے قد و رخ سے ظہور کی
(غالبؔ)
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
(اقبالؔ)
تحریر امجد اسلام امجد
اٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے۔ اردو نعت احمد رضا خان بریلوی رح
اٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے
زمانہ تاریک ہورہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے
انہیں کی بو مایہ ٴ سمن ہے انہیں کا جلوہ چمن چمن ہے
انہیں سے گلشن مہک رہے ہیں انہیں کی رنگت گلاب میں ہے
سیاہ لباسانِ دار ِدنیا و سبز پوشان ِعرشِ اعلیٰ
ہر اک ہے ان کے کرم کا پیاسا وہ فیض ان کی جناب میں ہے
وہ گل ہیں لب ہائے نازک ان کے ہزاروں جھڑتے ہیں پھول جن سے
گلاب گلشن میں دیکھے بلبل یہ دیکھ گلشن گلاب میں ہے
جلی ہے سوز جگر سے جاں تک ہے طالب ِجلوہٴ مبارک
دکھا دو وہ لب کہ آب حیواں کا لطف جن کے خطاب میں ہے
کھڑے ہیں منکر نکیر سر پر نہ کوئی حامی نہ کوئی یاور
بتادو آکر مرے پیمبر کہ سخت مشکل جواب میں ہے
خدائے قہار ہے غضب پر کھلے ہیں بد کاریوں کے دفتر
بچالو آ کر شفیع ِمحشر تمہارا بندہ عذاب میں ہے
کریم ایسا ملا کہ جس کے کھلے ہیں ہاتھ اور بھرے خزانے
بتاؤ اے مفلسو کہ پھر کیوں تمہارا دل اضطراب میں ہے
گنہ کی تاریکیاں یہ چھائیں امنڈ کے کالی گھٹائیں آئیں
خدا کے خورشید مہر فرما کہ ذرہ بس اضطراب میں ہے
کریم اپنے کرم کا صدقہ لیئم ِبے قدر کو نہ شرما
تو اور رضا سے حساب لینا رضا بھی کوئی حساب میں ہے
زمانہ تاریک ہورہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے
انہیں کی بو مایہ ٴ سمن ہے انہیں کا جلوہ چمن چمن ہے
انہیں سے گلشن مہک رہے ہیں انہیں کی رنگت گلاب میں ہے
سیاہ لباسانِ دار ِدنیا و سبز پوشان ِعرشِ اعلیٰ
ہر اک ہے ان کے کرم کا پیاسا وہ فیض ان کی جناب میں ہے
وہ گل ہیں لب ہائے نازک ان کے ہزاروں جھڑتے ہیں پھول جن سے
گلاب گلشن میں دیکھے بلبل یہ دیکھ گلشن گلاب میں ہے
جلی ہے سوز جگر سے جاں تک ہے طالب ِجلوہٴ مبارک
دکھا دو وہ لب کہ آب حیواں کا لطف جن کے خطاب میں ہے
کھڑے ہیں منکر نکیر سر پر نہ کوئی حامی نہ کوئی یاور
بتادو آکر مرے پیمبر کہ سخت مشکل جواب میں ہے
خدائے قہار ہے غضب پر کھلے ہیں بد کاریوں کے دفتر
بچالو آ کر شفیع ِمحشر تمہارا بندہ عذاب میں ہے
کریم ایسا ملا کہ جس کے کھلے ہیں ہاتھ اور بھرے خزانے
بتاؤ اے مفلسو کہ پھر کیوں تمہارا دل اضطراب میں ہے
گنہ کی تاریکیاں یہ چھائیں امنڈ کے کالی گھٹائیں آئیں
خدا کے خورشید مہر فرما کہ ذرہ بس اضطراب میں ہے
کریم اپنے کرم کا صدقہ لیئم ِبے قدر کو نہ شرما
تو اور رضا سے حساب لینا رضا بھی کوئی حساب میں ہے
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)