سنے کون قصۂ درد دل ، مرا غمگسار چلا گیا
جسے آشناؤں کا پاس تھا ، وہ وفا شعار چلا گیا
وہ سخن شناس ، وہ دور بیں ، وہ گدا نواز ، وہ مَہ جبیں
وہ حسیں ، وہ بحر علوم دیں ، مرا تاج دار چلا گیا
جسے نورِ مہرِ علی کہیں ، وہ جس کا نام ہے محیِ دیں
مجھے کیا خبر کہاں لوٹ کر ، وہ مری بہار چلا گیا
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے ، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس اسی چاند کی ، جو تہہ مزار چلا گیا
کہاں اب سخن میں وہ گرمیاں ، کہ نہں رہا کوئی قدر داں
کہاں اب وہ شوق کی مستیاں کہ وہ پُروقار چلا گیا
جسے میں سناتا تھا دردد ، وہ جو پوچھتا تھا غمِ دُروں
وہ گدا نواز بچھڑگیا ،وہ عطا شعار چلا گیا
بہیں کیوں نصیرؔ نہ اشکِ غم، رہے کیوں نہ لب پہ میرےفغاں
مجھے بے قرار وہ چھوڑ کر ، سرِ رہ گزار چلا گیا
جسے آشناؤں کا پاس تھا ، وہ وفا شعار چلا گیا
وہ سخن شناس ، وہ دور بیں ، وہ گدا نواز ، وہ مَہ جبیں
وہ حسیں ، وہ بحر علوم دیں ، مرا تاج دار چلا گیا
جسے نورِ مہرِ علی کہیں ، وہ جس کا نام ہے محیِ دیں
مجھے کیا خبر کہاں لوٹ کر ، وہ مری بہار چلا گیا
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے ، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس اسی چاند کی ، جو تہہ مزار چلا گیا
کہاں اب سخن میں وہ گرمیاں ، کہ نہں رہا کوئی قدر داں
کہاں اب وہ شوق کی مستیاں کہ وہ پُروقار چلا گیا
جسے میں سناتا تھا دردد ، وہ جو پوچھتا تھا غمِ دُروں
وہ گدا نواز بچھڑگیا ،وہ عطا شعار چلا گیا
بہیں کیوں نصیرؔ نہ اشکِ غم، رہے کیوں نہ لب پہ میرےفغاں
مجھے بے قرار وہ چھوڑ کر ، سرِ رہ گزار چلا گیا