جمعہ، 31 جولائی، 2015

سنے کون قصۂ درد دل ، مرا غمگسار چلا گیا۔ کلام پیر نصیر الدن نصیر

سنے کون قصۂ درد دل ، مرا غمگسار چلا گیا
جسے آشناؤں کا پاس تھا ، وہ وفا شعار چلا گیا

وہ سخن شناس ، وہ دور بیں ، وہ گدا نواز ، وہ مَہ جبیں 
وہ حسیں ، وہ بحر علوم دیں ، مرا تاج دار چلا گیا

جسے نورِ مہرِ علی کہیں ، وہ جس کا نام ہے محیِ دیں

مجھے کیا خبر کہاں لوٹ کر ، وہ مری بہار چلا گیا
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے ، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس اسی چاند کی ، جو تہہ مزار چلا گیا

کہاں اب سخن میں وہ گرمیاں ، کہ نہں رہا کوئی قدر داں
کہاں اب وہ شوق کی مستیاں کہ وہ پُروقار چلا گیا

جسے میں سناتا تھا دردد ، وہ جو پوچھتا تھا غمِ دُروں
وہ گدا نواز بچھڑگیا ،وہ عطا شعار چلا گیا

بہیں کیوں نصیرؔ نہ اشکِ غم، رہے کیوں نہ لب پہ میرےفغاں
مجھے بے قرار وہ چھوڑ کر ، سرِ رہ گزار چلا گیا

اک میں ہی نہیں اس پر قربان زمانہ ہے۔ کلام ؛ سید نصیر الدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ

کلام ؛ سید نصیر الدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ
اک میں ہی نہیں اس پر قربان زمانہ ہے
جو ربِِ دوعالم کا محبوب یگانہ ہے
کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے
زہرہ کا وہ بابا ہے ، سبطین کا نانا ہے
اس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں
جو حُسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے
عزت سے نہ مر جائیں کیوں نامِ محمد ﷺ پر
یوں بھی کسی دن ہم نے دنیا سے تو جانا ہے
آؤ در ِ زہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن
ہے نسل کریموں کی لجپال گھرانہ ہے
ہوں شاہِ مدینہ کی میں پشت پناہی میں
کیا اس کی مجھے پروا دشمن جو زمانہ ہے
یہ کہہ کے درِ حق سے لی موت میں کچھ مہلت
میلاد کی آمد ہے محفل کو سجانا ہے
قربان اس آقا پر کل حشر کے دن جس نے
اس امت ِ عاصی کو کملی میں چھپانا ہے
سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو حیرت کیا
بخشش کی روایت میں توبہ تو بہانہ ہے
ہر وقت وہ ہیں میری دنیائے تصور میں
اے شوق کہیں اب تو آنا ہے نہ جانا ہے
پرُنور سی راہیں ہیں گنبد پہ نگاہیں ہیں
جلوے بھی انوکھے ہیں منظر بھی سہانا ہے
ہم کیوں نہ کہیں ان سے روداد ِ الم اپنی
جب ان کا کہا خود بھی اللہ نے مانا ہے
محرومِ کرم اس کو رکھئے نہ سرِ محشر
جیسا ہے نصیر آخر سائل تو پرانا ہے

پیر نصیر الدین نصیر نعتیہ کلام ۔ مجھ پہ چشمِ کرم اے میرے آقا کرنا

مجھ پہ چشمِ کرم اے میرے آقا کرنا
حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضہ کرنا
میں کہ زرہ ہوں مجھے وسعتِ صحرا دےدے
کہ تیرے بس میں ہے قطرے کو دریا کرنا
میں ہوں بےکس تیرا شیوہ ہے سہارہ دینا
میں ہوں بیمار تیرا کام ہے اچھا کرنا
تو کسی کو بھی اٹھاتا نہیں اپنے در سے
کہ تیری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا
تیرے صدقے وہ اُسی رنگ میں خود ہی ڈوبا
جس نے جس رنگ میں چاہا مجھے رسوا کرنا
یہ تیرا کام ہے اے آمنہ کے درِ یتیم
ساری امت کی شفاعت تنِ تنہا کرنا
کثرتِ شوق سے اوسان مدینے میں ہیں گم
نہیں کُھلتا کہ مجھے چاہیے کیا کیا کرنا 
شاملِ مقصدِ تخلیق یہ پہلو بھی رہا
بزمِ عالم کو سجا کر تیرا چرچا کرنا
بصراحت ورفعنالک ذکرک میں ہے
تیری تعریف کرنا تجھے اونچا کرنا
تیرے آگے وہ ہر اک منظرِ فطرت کا ادب
چاند سورج کا وہ پہروں تجھے دیکھا کرنا
تبِ اقدس کے مطابق وہ ہواؤں کا خیرام
دھوپ میں دوڑ کے وہ ابر کا سایہ کرنا
کنکروں کا تیرے اعجاز سے وہ بول اٹھنا
وہ درختوں کا تیری دید پہ جھوما کرنا
وہ تیرا درس کہ جھکنا تو خدا کے آگے
وہ تیرا حکم کہ خالق کو ہی سجدہ کرنا
چاند کی طرح تیرے گرد وہ تاروں کا ہجوم
وہ تیرا حلقہ اصحاب میں بیٹھا کرنا
کعبہ قوسین کی منزل پہ یکایک وہ طلب
شبِ اسرا وہ بلانا تجھے دیکھا کرنا
دشمن آجائے تو اٹھ کر وہ بچھانا چادر
حسنِ اخلاق سے غیروں کو بھی اپنا کرنا
کوئی فاروق سے پوچھے کہ کسے آتا ہے
دل کی دنیا کو نظر سے تہہ وبالا کرنا
اُن صحابہ کی خشت وار نگاہوں کو سلام
جن کا مسلک تھا طوافِ رخِ زیبا کرنا
مجھ پہ محشر میں نصیر اُن کی نظر پڑھ ہی گئی
کہنے والے اسے کہتے ہیں خدا کا کرنا

نعت نبی Headline Animator

Search for islamic sites