اتوار، 11 اکتوبر، 2015

جس کی جرأت پر جہانِ رنگ و بو سجدے میں ہے ۔ نزرانہ عقیدت امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ

جس کی جرأت پر جہانِ رنگ و بو سجدے میں ہے
آج وہ رَمز آشنائے سِرِّ ھُو سجدے میں ہے

ہر نفس میں انشراحِ صدر کی خوشبو لیے
منزلِ حق کی مجسم جستجو سجدے میں ہے

کیسا عابد ہے یہ مقتل کے مصلی پر کھڑا
کیا نمازی ہے کہ بے خوف ِ عدو سجدے میں ہے

اے حسین ابن علی تجھ کو مبارک یہ عروج
آج تو اپنے خدا کے روبرو سجدے میں ہے

جانبِ کعبہ جھکا مولودِ کعبہ کا پسر
قبلہ رو ہو کر حسینِ قبلہ رو سجدے میں ہے

ابنِ زہرا اس تیری شانِ عبادت پر سلام
سر پہ قاتل آچکا ہے اور تو سجدے میں ہے

اللہ اللہ تیرا سجدہ اے شبیہ مصطفی
جیسے خود ذاتِ پیمبر ہو بہ ہو سجدے میں ہے

تھا عمل پیرا جو " كَلَّا لَا تُطِعْهُ " پر وہ آج
بن کے " وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ "کی آرزو سجدے میں ہے

یہ شرف کس کو ملا تیرے علاوہ بعدِ قتل
سر ہے نیزے کی بلندی پر ، لہو سجدے میں ہے

سر کو سجدے میں کٹا کر کہہ گیا زہرا کا لال
کچھ اگر ہے تو بشر کی آبرو سجدے میں ہے

کون جانے ، کو ن سمجھے ، کون سمجھائے نصیر
عابد و معبود کی جو گفتگو سجدے میں ہے
کلام پیر نصیر الدین نصیر

مرا پیمبر عظیم تر ہے . نعتیہ کلام مظفر وارثی

مرا پیمبر عظیم تر ہے
کمالِ خلاق ذات اُس کی
جمالِ ہستی حیات اُس کی
بشر نہیں عظمتِ بشر ہے 
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

وہ شرحِ احکام حق تعالیٰ
وہ خود ہی قانون خود حوالہ
وہ خود ہی قرآن خود ہی قاری
وہ آپ مہتاب آپ ہالہ
وہ عکس بھی اور آئینہ بھی
وہ نقطہ بھی خط بھی دائرہ بھی
وہ خود نظارہ ہے خود نظر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

شعور لایا کتاب لایا
وہ حشر تک کا نصاب لایا
دیا بھی کامل نظام اس نے
اور آپ ہی انقلاب لایا
وہ علم کی اور عمل کی حد بھی 
ازل بھی اس کا ہے اور ابد بھی
وہ ہر زمانے کا راہبر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

وہ آدم و نوح سے زیادہ
بلند ہمت بلند ارادہ
وہ زُہدِ عیسیٰ سے کوسوں آ گے
جو سب کی منزل وہ اس کا جادہ
ہر اک پیمبر نہاں ہے اس میں
ہجومِ پیغمبراں ہے اس میں
وہ جس طرف ہے خدا ادھر ہے 
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

بس ایک مشکیزہ اک چٹائی
ذرا سے جَو ایک چارپائی
بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی
یہی ہے کُل کائنات جس کی 
گنی نہ جائيں صفات جس کی 
وہی تو سلطانِ بحرو بر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

جو اپنا دامن لہو میں بھر لے
مصیبتیں اپنی جان پر لے
جو تیغ زن سے لڑے نہتا
جو غالب آ کر بھی صلح کر لے
اسیر دشمن کی چاہ میں بھی
مخالفوں کی نگاہ میں بھی
امیں ہے صادق ہے معتبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

جسے شاہِ شش جہات دیکھوں
اُسے غریبوں کے ساتھ دیکھوں
عنانِ کون و مکاں جو تھامے
خدائی پر بھی وہ ہاتھ دیکھوں
لگے جو مزدور شاہ ایسا
نذر نہ دَھن سربراہ ایسا
فلک نشیں کا زمیں پہ گھر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ خلوتوں میں بھی صف بہ صف بھی 
وہ اِس طرف بھی وہ اُس طرف بھی
محاذ و منبر ٹھکانے اس کے
وہ سربسجدہ بھی سربکف بھی
کہیں وہ موتی کہیں ستارہ
وہ جامعیت کا استعارہ
وہ صبحِ تہذیب کا گجر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

جمعہ، 9 اکتوبر، 2015

بے مثل ہے کونین میں سرکار کا چہرہ ۔ کلام پیر نصیر الدین نصیر

بے مثل ہے کونین میں سرکار کا چہرہ
آئینہِ حق ہے شہہِ ابرار کا چہرہ

دیکھیں تو دعا مانگیں یہی یوسفِ کنعاں
تکتا رہوں خالق ! ترے شہکار کا چہرہ

خورشیدِ حلیمہ! تری مشتاق ہیں آنکھیں
بھاتا نہیں اب ماہِ ضیا بار کا چہرہ

اے خُلد کروں گا ترا دیدار بھی لیکن
اِس دم ہے نظر میں ترے مختار کاچہرہ

والشمس کی یہ دادِ قسم کہتی ہے مڑ کر
بے داغ رہا شاہ کے کردار کا چہرہ

جلوؤں سے ہو معمور کیوں نہ دل کا مدینہ
آنکھوں میں ہے اُس مطلعِ انوار کا چہرہ

دورانِ شفاعت وہ سکوں بخش دِلا سے
بے فکرِ ندامت ہے گنہگار کا چہرہ

کِھلتا ہی گیا پھول کی صورت دمِ آخر
اُترا نہیں دیکھا ترے بیمار کا چہرہ

پوچھا جو یہ سائل نے کہ کیا چیز ہے اَحسن
صدیق نے برجستہ کہا "یار کا چہرہ"

جھپکے جو نصیر آنکھ دمِ نزع تو یا رب!
پُتلی میں پھرے احمدِ مختار کا چہرہ

(نصیر الدین نصیر)​

اعلی حضرت احمد رضا خاں کی چار زبانوں میں ایک خوبصورت نعت

لَم یَاتِ نَظیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

آپ کی مثل کسی آنکھ نے نہیں دیکھا نہ ہی آپ جیسا کوئی پیدا ہوا
سارے جہان کا تاج آپ کے سر پر سجا ہے اور آپ ہی دونوں جہانوں کے سردار ہیں

اَلبحرُ عَلاَوالموَجُ طغےٰ من بیکس و طوفاں ہوشربا
منجدہار میں ہوں بگڑی ہے ہواموری نیا پار لگا جانا

دریا کا پانی اونچا ہے اور موجیں سرکشی پر ہیں میں بے سروسامان ہوں اور طوفان ہوش اُڑانے والا ہے
بھنورمیں پھنس گیا ہوں ہوا بھی مخلالف سمت ہے آپ میری کشتی کو پار لگا دیں

یَا شَمسُ نَظَرتِ اِلیٰ لیَلیِ چو بطیبہ رسی عرضے بکنی
توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا

اے سورج میری اندھیری رات کو دیکھ تو جب طیبہ پہنچے تو میری عرض پیش کرنا
کہ آپ کی روشنی سے سارا جہان منور ہو گیا مگر میری شب ختم ہو کر دن نہ بنی

لَکَ بَدر فِی الوجہِ الاجَمل خط ہالہ مہ زلف ابر اجل
تورے چندن چندر پروکنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا

آپ کا چہرہ چودھویں کے چاند سے بڑھ کر ہےآپ کی زلف گویا چاند کے گرد ہالہ (پوش)ہے
آپ کے صندل جیسے چہرہ پر زلف کا بادل ہے اب رحمت کی بارش برسا ہی دیں

انا فِی عَطَش وّسَخَاک اَتَم اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرم
برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا

میں پیاسا ہوں اور آپ کی سخاوت کامل ہے،اے زلف پاک اے رحمت کے بادل
برسنے والی بارش کی ہلکی ہلکی دو بوندیں مجھ پر بھی گرا جا

یَا قاَفِلَتیِ زِیدَی اَجَلَک رحمے برحسرت تشنہ لبک
مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا

اے قافلہ والوں اپنے ٹھہرنے کی مدت زیادہ کرو میں ابھی حسرت زدہ پیاسا ہوں
میرا دل طیبہ سے جانے کی صدا سن کر گھبرا کر تیز تیز ڈھڑک رہا ہے

وَاھا لسُویعات ذَھَبت آں عہد حضور بار گہت
جب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینہ کا جانا

افسوس آپ کی بارگاہ میں حضوری کی گھڑیاں تیزی سے گزر گئی
مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب میں سفر کی تکالیف کی پرواہ کئے بغیر مدنیہ آ رہا تھا

اَلقلبُ شَح وّالھمُّ شجوُں دل زار چناں جاں زیر چنوں
پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مورا کون ہے تیرے سوا جانا

دل زخمی اور پریشانیاں اندازے سے زیادہ ہیں،دل فریادی اور چاں کمزور ہے
میراے آقا میں اپنی پریشانیاں کس سے کہوں میری جان آپ کے سوا کون ہے جو میری سنے

اَلروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عشقا
مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا

میری جان آپ پر فدا ہے،عشق کی چنگاری سے مزید بڑھا دیں
میرا جسم دل اور سامان سب کچھ نچھاور ہو گیا اب اس جان کو بھی جلا دیں

بس خامہ خام نوائے رضا نہ یہ طرز میری نہ یہ رنگ مرا
ارشاد احبا ناطق تھا ناچار اس راہ پڑا جانا

رضا کی شاعری نا تجربہ کاراور قلم کمزور ہے ، میرا طور طریقہ اور انداز ایسا نہیں ہے
دوستوں کے اصرار پر میں نے اس طرح کی راہ اختیار کی یعنی چار زبانوں میں شاعری کی

اتوار، 13 ستمبر، 2015

مجھے در پہ پھر بلانا مدنی مدینے والے

مجھے در پہ پھر بلانا مدنی مدینے والے
مئے عشق بھی پلانا مدنی مدنیے والے
میری آنکھ میں سمانا مدنی مدنیے والے
بنے دل تیرے ٹھکانا مدنی مدنیے والے
تیری جبکہ دیدہوگی تبھی میری عیدہوگی
میرے خواب میں تم آنا مدنی مدنیے والے
مجھے سب ستا رہے ہیں میرا دل دکھارہےہیں
تمہیں حوصلہ بڑھانا مدنی مدنیے والے
میرے سب عزیز چھوٹے سبھی یار بھی تو روٹھے
کہیں تم نہ روٹھ جانا مدنی مدنیے والے
میں اگر چہ ہوں کمینہ تیرا ہوں شہہ مدینہ
مجھے سینے سے لگانا مدنی مدنیے والے
کہیں کس سے آہ جاکر سنے کون میرے دلبر
میرے درد کا فسانہ مدنی مدینے والے
کبھی جو کی موٹی روٹی تو کبھی کھجورپانی
تیرا ایساسادہ کھانا مدنی مدینےوالے
ہے چٹائی کا بچھونا کبھی خاک ہی پہ سونا
کبھی ہاتھ کاسر ہانہ مدنی مدینےوالے
تیری سادگی پہ لاکھوں تیری عاجزی پہ لاکھوں
ہوں سلام عاجزانہ مدنی مدینے والے
یہ مریض مر رہا ہے تیرے ہاتھ میں شفاء ہے
اے طبیب جلد آنا مدنی مدینے والے
مجھے آفتوں نے گھیرا ، ہے مصیبتوں کا ڈیرہ
یا نبی مدد کو آنا مدنی مدینے والے
میری آنے والی نسلیں تیرے عشق ہی میں مچلیں
انہیں نیک تم بنانا مدنی مدینے والے
تیرے غم میں کاش عطار رہے ہر گھڑی گرفتار
غم مال سے بچانا مدنی مدینے والے

کیا سبز سبز گنبد کا خوب ہے نظارہ

کیا سبز سبز گنبد کا خوب ہے نظارہ 
ہے کس قدر سہانا کیسا ہے پیارا پیارا
ہوتی ہے یہاں چھم چھم برسات نور پیہم 
پرنور سبز گنبد پر نور ہر منارہ
پیش نظر ہو ہر دم بس سبز سبز گنبد 
دل میں بسا رہے جلوہ سدا تمہارا
سائے میں سبز گنبد کے توڑنے بھی دو دم 
چارہ کرو خدارا کوئی کرو نہ چارا
غوث الورٰی کا صدقہ وہ غم مجھے تو دیدے 
روتے ہوئے ہی گزرے سرکار وقت سارا
سینہ بنے مدینہ دل میں بسے مدینہ 
یادوں میں اپنی رکھئے گم یانبی خدارا
مت چھوڑئیے مجھے اب دنیا کی ٹھوکروں پر 
بس آپ ہی کے ٹکڑوں پر ہو مرا گزارا
سرکار حب دنیا سے مرے نکالو 
دیوانہ اب بنا لو اپنا مجھے خدارا
تڑپا کروں سدا میں اے کاش تیرے غم میں 
ہائے مجھے زمانے کے رنج و غم نے مارا
گریہ کناں ہیں یارب شوق مدینہ میں جو 
طیبہ کا کاش ہو بھی کر لیں کبھی نظارہ
رنج و الم کے بادل سارے ہی چھٹ گئے ہیں 
جب بھی تڑپ کے ہم نے سرکار کو پکارا
ٹھکرا دے جس کو دنیا اس کو گلے لگانا 
ہے کام کس کا آقا یا مصطفٰے تمہارا
طیبہ میں اب تو مجھ کو دوگز زمین دیدو 
کب تک پھروں میں در در سرکار مارا مارا
دو دے بقیع دے دو مجھ کو بقیع دے دو 
کر دو سوال پورا یا مصطفٰے خدارا
ہیں مصطفٰے مددگار اے دشمنوں خبردار 
یہ مت سمجھنا پیچھے کوئی نہیں ہمارا
ہے دشمنوں نے گھیرا للہ کوئی پھیرا 
یا مصطفٰے خدارا اب آ کے دو سہارا
کر دے عدو کو غارت حاسد کو دے ہدایت 
یارب ستم کا بڑھتا جاتا ہے تیز دھارا
ظالم ڈرا رہے ہیں آنکھیں دکھا رہے ہیں 
آقا دو جلد آ کر عطارکو سہارا

کوئے نبی سے آ نہ سکے ہم راحت ہی کچھ ایسی تھی

کوئے نبی سے آ نہ سکے ہم راحت ہی کچھ ایسی تھی
یاد رہی نہ جنت ہم کو وہ جنت ہی کچھ ایسی تھی
تکتے رہے یوسف جیسے بھی حشر میں اُن کے چہرے کو
جب پوچھا تو کہنے لگے وہ صورت ہی کچھ ایسی تھی
پاس بُلایا پاس بٹھایا جلوہ دِکھایا خالق نے
یہ تو آخر ہونا ہی تھا چاہت ہی کچھ ایسی تھی
دُنیا میں سرکار کی نعتیں پڑھتے رہے ہر اِک لمحہ
قبر میں بھی تھی نعت لبوں پر عادت ہی کچھ ایسی تھی
قبر میں حاکم جب پہنچے تو ہنس کے نکیروں نے دیکھا
کیوں نہ فرشتے پیار سے ملتے وہ نسبت ہی کچھ ایسی تھی
(صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم)

ہفتہ، 12 ستمبر، 2015

زہے مقدر حضور حق سے سلام آیا ، پیام آیا ۔ مشہور زمانہ اردو نعت

زہے مقدر حضور حق سے سلام آیا ، پیام آیا
جھکاؤ نظریں ، بچھاؤ پلکیں ، ادب کا اعلیٰ مقام آیا
یہ کون سر سے کفن لپیٹے ، چلا ہے الفت کے راستے پر
فرشتے حیرت سے تک رہے ہیں یہ کون ذی احترام آیا
فضا میں لبیک کی صدائیں ، ز فرش تا عرش گونجتی ہیں
ہر ایک قربان ہو رہا ہے ، زباں پہ یہ کس کا نام آیا
یہ راہ حق ہے سنبھل کے چلنا ، یہاں ہے منزل قدم قدم پر
پہنچنا در پر تو کہنا آقا ، سلام لیجیے غلام آیا
یہ کہنا آقا بہت سے عاشق تڑپتے سے چھوڑ آیا ہوں میں
بلاوے کے منتظر ہیں ، لیکن نہ صبح آیا ، نہ شام آیا
دعا جو نکلی تھی دل سے آخر ، پلٹ کے مقبول ہو کے آئی
وہ جذبہ جس میں تڑپ تھی سچی ، وہ جذبہ آخر کو کام آیا
خدا تیرا حافظ و نگہباں ، او راہ بطحا کے جانے والے
نوید صد انبساط بن کر پیام دارالسلام آیا
زہے مقدر حضور حق سے سلام آیا ، پیام آیا
جھکاؤ نظریں ، بچھاؤ پلکیں ، ادب کا اعلیٰ مقام آیا.

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ۔ کلام مولاناالطاف حسین حالی

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
خطا کا ر سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا
مولاناالطاف حسین حالی

بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ​ ، صوفی کلام بیدم شاہ وارثی

بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ​
آ دِل میں تُجھے رکھ لُوں اے جلوہ جَانَانَہ​

کِیوں آنکھ مِلائی تِھی کیوں آگ لگائی تِھی​
اب رُخ کو چُھپا بیٹھے کر کے مُجھے دِیوانہ​

اِتنا تو کرم کرنا اے چِشمِ کریمانہ​
جب جان لبوں پر ہو تُم سامنے آ جانا​

اب موت کی سختِی تو برداشت نہیں ہوتِی​
تُم سامنے آ بیٹھو دم نِکلے گا آسانہ​

دُنیا میں مُجھے اپنا جو تُم نے بنایا ہے​
محشر میں بِھِی کہہ دینا یہ ہے مرا دیوانہ​

جاناں تُجھے مِلنے کی تدبِیر یہ سوچِی ہے​
ہم دِل میں بنا لیں گے چھوٹا سا صنم خانہ​

میں ہوش حواس اپنے اِس بات پہ کھو بیٹھا​
تُو نے جو کہا ہنس کے یہ ہے میرا دیوانہ​

پینے کو تو پِی لُوں گا پر عَرض ذرّا سی ہے​
اجمیر کا ساقِی ہو بغداد کا میخانہ​

کیا لُطف ہو محشر میں شِکوے میں کیے جاوں​
وہ ہنس کے یہ فرمائیں دیوانہ ہے دیوانہ​

جِی چاہتا ہے تحفے میں بھِیجُوں اُنہیں آنکھیں​
درشن کا تو درشن ہو نذرانے کا نذرانَہ​

بیدمؔ میری قِسمت میں سجدے ہیں اُسِی دّر کے​
چُھوٹا ہے نہ چُھوٹے گا سنگِ درِّ جَانَانَہ​

منگل، 8 ستمبر، 2015

یا رحمتہ العالمیں ۔ نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔ شاعر: مظفر وارثی

یا رحمتہ العالمیں 
الہام جامہ ہے تیرا
قرآں عمامہ ہے تیرا
منبر تیرا عرشِ بریں
یا رحتمہ العالمیں

آئینہء رحمت بدن
سانسیں چراغِ علم و فن
قربِ الٰہی تیرا گھر
الفقر و فخری تیرا دھن
خوشبو تیری جوئے کرم
آنکھیں تیری بابِ حرم
نُورِ ازل تیری جبیں
یا رحمتہ العالمیں

تیری خموشی بھی اذاں
نیندیں بھی تیری رتجگے
تیری حیاتِ پاک کا
ہر لمحہ پیغمبر لگے
خیرالبشر رُتبہ تیرا
آوازِ حق خطبہ تیرا
آفاق تیرے سامعیں
یا رحمتہ العالمیں

قبضہ تیری پرچھائیں کا
بینائی پر ادراک پر
قدموں کی جنبش خاک پر
اور آہٹیں افلاک پر
گردِ سفر تاروں کی ضَو
مرقب براقِ تیز رَو
سائیس جبرئیلِ امیں
یا رحمتہ العالمیں

تو آفتابِ غار بھی
تو پرچم ِ یلغار بھی
عجز و وفا بھی ، پیار بھی
شہ زور بھی سالار بھی
تیری زرہ فتح و ظفر
صدق و وفا تیری سپر
تیغ و تبر صبر و یقیں
یا رحمۃ للعالمیں

پھر گڈریوں کو لعل دے
جاں پتھروں میں ڈال دے
حاوی ہوں مستقبل پہ ہم
ماضی سا ہم کو حال دے
دعویٰ ہے تیری چاہ کا
اس امتِ گُم راہ کا
تیرے سوا کوئی نہیں
یا رحمتہ العالمیں

شاعر: مظفر وارثی

جمعرات، 20 اگست، 2015

Qawali is karam ka karoon shuker kese ada ... نعتیہ قوالی اس کرم کا کروں شکر کیسے ادا جو کرم مجھ پہ میرے نبی کر دیا ۔۔۔ نصرت فتح علی خاں


KAMLI WALE MUHAMMAD .. NATIYA QAWALI کملی والے محمد توں صدقے میں جاں


YADE NABI KA GULSHAN MEHKA MEHKA LAGTA HE . QAWALI BY NUSRAT FATEH ALI KHAN


BHAR DO JHOLI MERI YA MUHAMMAD . QAWALI . SABRI BROTHERS


NORI MUKHRA TE ZULFAAN NE KALIYA . BY SHAHBAZ QAMAR AFRIDI. PUNJABI NAAT


Liya nam dil se hazoor ka . Urdu naat by Rafiq zia Qadri


Muhammad Rafique Zia Qadri ~ Lagiyaan Ne Moojan 2 . Punjabi naat


اتوار، 2 اگست، 2015

اج سک متراں دی ودھیری اے ۔ KLAM PIR MEHAR ALI SHAH

اج سک متراں دی ودھیری اے
کیوں دلڑی اداس گھنیری اے
لوںلوں وچ شوق چنگیری اے
اج نیناں نے لائیاں کیوں جھڑیاں
مکھ چند بدر شاشانی اے
متھے چمکے لاٹ نورانی اے
کالی زلف تے اکھہ مستانی اے
مخمور اکھیں ہن مدھ بھریاں
اس صورت نوں میں جان آکھاں
جان آکھاں کے جان جہان آکھاں
سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں
جس شان تھیں شاناں سب بنیاں
سبحان اللہ ما اجملک
ما احسنک مااکملک
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا​
گستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں۔

خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گل چیدہ۔ ۔ مزید پیاری پیاری نعتیں

خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گل چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں ترے اوصاف حمیدہ

تجھ سا کوئی آیا ہے ، نہ آئے گا جہاں میں
دیتا ہے گواہی یہی ، عالم کا جریدہ۔۔۔

اے ہادئ برحق تیری ہر بات ہے سچی
دیدہ سے بھی بڑھ کر ہے ترے لب سے شنیدہ


اے رحمت عالم تیری یادوں کی بدولت
کس درجہ سکوں میں ہے مرا قلب تپیدہ

خیرات مجھے اپنی محبت کی عطا کر
آیا ہوں ترے در پہ بہ دامان دریدہ

تو روح زمن ، روح چمن ، روح بہاراں
تو جان بیاں ، جان غزل ، جان قصیدہ

یوں دور ہوں تائب میں حریم نبوی سے
صحرا میں ہو جس طرح کوئی شاخ بریدہ

محترم حفیظ تائب​

مجموعہ نعت ۔ پیاری پیاری نعتیں


میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

کمالِ خلاق ذات اُسکی
جہان ِ ہستی حیات اُسکی
بشر نہیں عظمت ِ بشر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ شرعِ احکام ِ حق تعالیٰ 
وہ خود ہی قانون خود حوالہ
وہ خود ہی قرآن خود ہی قاری
وہ آُ پ مہتاب آپ ہالہ
وہ عکس بھی آئینہ بھی وہ ہے
وہ نکتہ بھی خط بھی دائرہ بھی

وہ خود نظارہ ہے خود نظر ہے 
میرا پیمبر عظیم تر ہے

میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

شعور لایا کتاب لایا
وہ حشر تک کا نصاب لایا
دیا بھی کامل نظام اسنے
اور آپ ہی انقلاب لایا
وہ علم کی اور عمل کی حد بھی
ازل بھی اُ سکا ہے اور ابد بھی

وہ ہر زمانے کا راہبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ آدم و نوح سے بھی زیادہ
بلند ہمت بلند ارادہ
وہ زُہد عیسیٰ سے کوسوں آگے
جو سب کی منزل وہ اُسکا جادہ
ہر اک پیمبر نہاں ہے اُس میں
ہجومِ پیمبراں ہے اُس میں

وہ جس طرف ہے خدا اُدھر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

بس ایک مشکیزہ اک چٹائی 
ذرا سی جو ایک چارپائی
بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لباسی نہ خوش قُبائی
یہی ہے کل کائنات جسکی
گنی نہ جائیں صفات جسکی

وہی تو سلطان بحروبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

جو اپنا دامن لہو سے بھر لے
مصیبتیں اپنی جان پر لے
جو تیغ زن سے لڑے نہتا
جو غالب آکر بھی صلح کر لے
اسیر دشمن کی چاہ میں بھی
مخالفوں کی نگاہ میں بھی

امین ہے صادق ہے معتبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ خلوتوں میں بھی صف بصف بھی
وہ اِس طرف بھی وہ اُس طرف بھی
محاذ و ممبر ٹھکانے اُسکے
وہ سربسجدہ بھی رس بکف بھی
کہیں وہ موتی کہیں ستارہ
وہ جامعیت کا استعارہ

وہ صبح تہزیب کا گوہر ہے 
میرا پیمبر عظیم تر ہے

میرا پیمبر عظیم تر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

نعت نبی Headline Animator

Search for islamic sites