اتوار، 26 فروری، 2017

لگیاں نے موجاں ہن لائی رکھیں سوہنیا . كلام الحاج رفیق ضیا قادری


لگیاں نے موجاں ہن لائی رکھیں سوہنیا
چنگے ہا کے مندے ہاں ، نبھائی رکھی سوہنیا
آقا دے غلاماں دا میں ادنٰی غلام ہاں
لوکی کہندے خاص میں تے عاما تووی عام ہاں
پردہ جئے پایا ہے تے پائی رکھی سوہنیا
چنگے ہا کے مندے ہاں، نبھائی رکھی سوہنیا
لگیاں نے موجاں ہن لائی رکھیں سوہنیا
کسے نوں میں اپنا دکھڑا سنایا نہی
تیرے بعدو کسے مینوں سینے نال لایا نہی
سینے نال لایا ہے تے لائی رکھیں سوہنیا
چنگے ہا کے مندے ہاں، نبھائی رکھی سوہنیا
لگیاں نے موجاں ہن لائی رکھیں سوہنیا
حشر دہاڑے جد عملاں نو تولنا
شرم دے مارے میں تے کجھ وی نہی بولنا
دامن وچ اپنے لکائی رکھیں سوہنیا
چنگے ہا کے مندے ہاں، نبھائی رکھی سوہنیا
لگیاں نے موجاں ہن لائی رکھیں سوہنیا
ناں تیرا لے کے آقا شان میں وی پائی اے
تیرے ہتھ ڈور سائیاں آپے تو چڑھائی اے
تے چڑھی ہوئی گڈی نوچڑھائی رکھیں سوہنیا
چنگے ہا کے مندے ہاں، نبھائی رکھی سوہنیا
لگیاں نے موجاں ہن لائی رکھیں سوہنیا
ناں تیرا لے کے آقا غلام سارے سجے نے
قسم خدا دی تساں عیب سارے کجے نے
لکے ہوئے عیباں نو لکائی رکھیں سوہنیا
چنگے ہا کے مندے ہاں، نبھائی رکھی سوہنیا
لگیاں نے موجاں ہن لائی رکھیں سوہنیا
ضیاء تیری آل دا ادنٰی غلام اے
ایدھے نالوں ودھ ہور لینا کی انعام اے
بنیا غلام میں بنائی رکھی سوہنیا
چنگے ہا کے مندے ہاں، نبھائی رکھی سوہنیا
لگیاں نے موجاں ہن لائی رکھیں سوہنیا
كلام الحاج رفیق ضیا قادری

اتوار، 11 اکتوبر، 2015

جس کی جرأت پر جہانِ رنگ و بو سجدے میں ہے ۔ نزرانہ عقیدت امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ

جس کی جرأت پر جہانِ رنگ و بو سجدے میں ہے
آج وہ رَمز آشنائے سِرِّ ھُو سجدے میں ہے

ہر نفس میں انشراحِ صدر کی خوشبو لیے
منزلِ حق کی مجسم جستجو سجدے میں ہے

کیسا عابد ہے یہ مقتل کے مصلی پر کھڑا
کیا نمازی ہے کہ بے خوف ِ عدو سجدے میں ہے

اے حسین ابن علی تجھ کو مبارک یہ عروج
آج تو اپنے خدا کے روبرو سجدے میں ہے

جانبِ کعبہ جھکا مولودِ کعبہ کا پسر
قبلہ رو ہو کر حسینِ قبلہ رو سجدے میں ہے

ابنِ زہرا اس تیری شانِ عبادت پر سلام
سر پہ قاتل آچکا ہے اور تو سجدے میں ہے

اللہ اللہ تیرا سجدہ اے شبیہ مصطفی
جیسے خود ذاتِ پیمبر ہو بہ ہو سجدے میں ہے

تھا عمل پیرا جو " كَلَّا لَا تُطِعْهُ " پر وہ آج
بن کے " وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ "کی آرزو سجدے میں ہے

یہ شرف کس کو ملا تیرے علاوہ بعدِ قتل
سر ہے نیزے کی بلندی پر ، لہو سجدے میں ہے

سر کو سجدے میں کٹا کر کہہ گیا زہرا کا لال
کچھ اگر ہے تو بشر کی آبرو سجدے میں ہے

کون جانے ، کو ن سمجھے ، کون سمجھائے نصیر
عابد و معبود کی جو گفتگو سجدے میں ہے
کلام پیر نصیر الدین نصیر

مرا پیمبر عظیم تر ہے . نعتیہ کلام مظفر وارثی

مرا پیمبر عظیم تر ہے
کمالِ خلاق ذات اُس کی
جمالِ ہستی حیات اُس کی
بشر نہیں عظمتِ بشر ہے 
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

وہ شرحِ احکام حق تعالیٰ
وہ خود ہی قانون خود حوالہ
وہ خود ہی قرآن خود ہی قاری
وہ آپ مہتاب آپ ہالہ
وہ عکس بھی اور آئینہ بھی
وہ نقطہ بھی خط بھی دائرہ بھی
وہ خود نظارہ ہے خود نظر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

شعور لایا کتاب لایا
وہ حشر تک کا نصاب لایا
دیا بھی کامل نظام اس نے
اور آپ ہی انقلاب لایا
وہ علم کی اور عمل کی حد بھی 
ازل بھی اس کا ہے اور ابد بھی
وہ ہر زمانے کا راہبر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

وہ آدم و نوح سے زیادہ
بلند ہمت بلند ارادہ
وہ زُہدِ عیسیٰ سے کوسوں آ گے
جو سب کی منزل وہ اس کا جادہ
ہر اک پیمبر نہاں ہے اس میں
ہجومِ پیغمبراں ہے اس میں
وہ جس طرف ہے خدا ادھر ہے 
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

بس ایک مشکیزہ اک چٹائی
ذرا سے جَو ایک چارپائی
بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی
یہی ہے کُل کائنات جس کی 
گنی نہ جائيں صفات جس کی 
وہی تو سلطانِ بحرو بر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

جو اپنا دامن لہو میں بھر لے
مصیبتیں اپنی جان پر لے
جو تیغ زن سے لڑے نہتا
جو غالب آ کر بھی صلح کر لے
اسیر دشمن کی چاہ میں بھی
مخالفوں کی نگاہ میں بھی
امیں ہے صادق ہے معتبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

جسے شاہِ شش جہات دیکھوں
اُسے غریبوں کے ساتھ دیکھوں
عنانِ کون و مکاں جو تھامے
خدائی پر بھی وہ ہاتھ دیکھوں
لگے جو مزدور شاہ ایسا
نذر نہ دَھن سربراہ ایسا
فلک نشیں کا زمیں پہ گھر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ خلوتوں میں بھی صف بہ صف بھی 
وہ اِس طرف بھی وہ اُس طرف بھی
محاذ و منبر ٹھکانے اس کے
وہ سربسجدہ بھی سربکف بھی
کہیں وہ موتی کہیں ستارہ
وہ جامعیت کا استعارہ
وہ صبحِ تہذیب کا گجر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

جمعہ، 9 اکتوبر، 2015

بے مثل ہے کونین میں سرکار کا چہرہ ۔ کلام پیر نصیر الدین نصیر

بے مثل ہے کونین میں سرکار کا چہرہ
آئینہِ حق ہے شہہِ ابرار کا چہرہ

دیکھیں تو دعا مانگیں یہی یوسفِ کنعاں
تکتا رہوں خالق ! ترے شہکار کا چہرہ

خورشیدِ حلیمہ! تری مشتاق ہیں آنکھیں
بھاتا نہیں اب ماہِ ضیا بار کا چہرہ

اے خُلد کروں گا ترا دیدار بھی لیکن
اِس دم ہے نظر میں ترے مختار کاچہرہ

والشمس کی یہ دادِ قسم کہتی ہے مڑ کر
بے داغ رہا شاہ کے کردار کا چہرہ

جلوؤں سے ہو معمور کیوں نہ دل کا مدینہ
آنکھوں میں ہے اُس مطلعِ انوار کا چہرہ

دورانِ شفاعت وہ سکوں بخش دِلا سے
بے فکرِ ندامت ہے گنہگار کا چہرہ

کِھلتا ہی گیا پھول کی صورت دمِ آخر
اُترا نہیں دیکھا ترے بیمار کا چہرہ

پوچھا جو یہ سائل نے کہ کیا چیز ہے اَحسن
صدیق نے برجستہ کہا "یار کا چہرہ"

جھپکے جو نصیر آنکھ دمِ نزع تو یا رب!
پُتلی میں پھرے احمدِ مختار کا چہرہ

(نصیر الدین نصیر)​

نعت نبی Headline Animator

Search for islamic sites